ایک دفعہ ایک گدھ اور ایک شاہین بلند پرواز ہو گئے۔بلندی پر ہوا میں تیرنے لگ گئے۔وہ دونوں ایک جیسےہی نظر آ رہے تھے۔ اپنی بلندیوں پر مست، زمین سے بے نیاز،آسمان سے بے خبر، بس مصروفِ پرواز۔
دیکھنے والے بڑے حیران ہوۓ کہ یہ دونوں ہم فطرت نہیں ہیں، ہم پرواز کیسے ہو گئے؟ شاہین نے گدھ سے کہا “ دیکھو اس دنیا میں ذوقِ پرواز کے علاوہ اور کوئی بات قابلِ غور نہیں۔” گدھ نے بھی تکلفاً کہہ دیا” ہاں مجھے بھی پرواز عزیز ہے، میرے پَر بھی مجھے بلند پروازی کے لیے ملے۔”
لیکن کچھ ہی لمحوں بعد گدھ نے نیچے دیکھا۔ اُسے دور سے ایک مرا ہوا گھوڑا نظر آیا۔ اس نے شاہین سے کہا “ جہنم میں گئی تمہاری بلند پروازی اور بلند نگاہی، مجھے میری منزل پکار رہی ہے۔”
اتنا کہہ کر گدھ نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور اپنی منزلِ مُردار پر آ گرا۔ فطرت الگ الگ تھی، منزل الگ الگ رہی۔ہم سفر آدمی اگر ہم فطرت نہ ہو تو ساتھ کبھی منزل تک نہیں پہنچتا۔
انسانوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ فطرت اپنا اظہار کرتی رہتی ہے۔ جو کمینہ ہے وہ کمینہ ہی ہےخواہ وہ کسی مقام و مرتبہ میں ہو۔ میاں محمد صاحب رح کا ایک مشہور شعر ہے کہ
نیچاں دی اشنائی کولوں کسے نئیں پھل پایا
ککر تے انگور چڑھایا ، ہر گچھا زخمایا
( کمینے انسان کی دوستی کبھی کوئی پھل نہیں دیتی جس طرح کیکر پر انگور کی بیل چڑھانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ہر گچھا زخمی ہو جاتا ہے۔)
۔۔۔۔۔حضرت واصف علی واصف رح
———————————————————-
(کتاب :۔ حرف حرف حقیقت)
Bilkul sahi 🙂
No comments:
Post a Comment